تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید عابد حسین حسینی
حوزہ نیوز ایجنسی | پر ارزش کتاب تحف العقول میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے: «الناس بامرائهم اشبه من آبائهم» لوگ انکے حکمرانوں سے، اپنے والدین سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں یقیناً مولا کے اس دلنشین کلام میں ژینٹک اور جینیاتی مماثلت مراد نہیں ہے، بلکہ اخلاقی اور رفتار کی مماثلت مراد ہے۔ اور ایک معروف جملہ ہے «الناس علی دین ملوکهم» لوگ اپنے حکمرانوں کے مذہب پر چلتے ہیں۔
گزشتہ ادوار میں خود کو رہبر و رہنما جتلانے والے کچھ لوگ حاکم تو نہیں بن سکے مگر عوام کی طرح حکمرانوں جیسے ہی بن گئے ہیں۔ جن کا گمان یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے کشمیر کے مظلوموں کے لئے مختلف محاذوں پر کئی سالوں سے تکدو کی ہیں، اس لیے انہیں آج جو چاہیں ملنا چاہیے، وہ جو کچھ کرے کوئی اس پر سوال نہ اٹھائے!!! جبکہ جنہوں نے جانی اور مالی قربانیاں دی ہے انہوں نے بغیر مادی ترغیب کے قربانی دی اور قوم، مذہب، اور وطن کے دفاع کے لیے قربانی دی تھے۔ اور غلامی سے نجات پانے کے لئے جانثاری کی، اور اب جب کہ حکمرانوں کی طرح تشنہ جاہ و مقام ہیں اور ھل من مذید پکار پکار کر کہتے ہیں۔ ان لوگوں کو صحیح طور پہچاننے کے لئے تاریخ کے ان دو مختصر واقعات کا غور سے مطالعہ کیجئے۔
مفاد پرست اور ابن الوقت افراد کی پہچان کرنے کے لئے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے یزید بن معاویہ کی خلافت کا قصہ پڑھنا چاہئے لگ پتہ جاتا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ اور اس کے ساتھیوں کو مال و مقام کی لالچ ہوئی تو انہوں نے طے کیا کہ جب امیر شام معاویہ اپنی تقریر میں خلیفہ کی جانشین کا مسئلہ ذکر کرے گا تو وہ یزید کو اٹھائیں گے اور اس کی حمایت کریں گے، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تو معاویہ نے ایک خصوصی ملاقات میں اس گروپ سے کہا کہ تم نے اپنا دین سستا بیچا ہے، جبکہ ایسے بھی سرفروش افراد تاریخ نے دیکھے ہیں جنہوں نے اپنے دین و ایمان کا کسی بھی قیمت پر سودا نہیں کیا ہے تاریخ اسلام میں ذکر ہوا ہے تیسرے خلیفہ نے سونے کا ایک تھیلا صحابی پیغمبر جناب ابوذر غفاری رضوان اللہ تعالیٰ علیه کے پاس بھیجا اور کہا کہ یہ خلیفہ کا آپ کے لیے تحفہ ہے کہ آپ پیغمبر کے پاکیزہ صحابی ہیں اور صدر اسلام کی جنگوں کے تجربہ کار مجاہد ہیں۔ جناب ابوذر رضوان اللہ تعالیٰ علیه نے پوچھا کہ کیا یہ تھیلی بیت المال کی تقسیم کا ہے یا صرف مجھے بھیجا گیا ہے؟ ان سے کہا گیا یہ آپ کے لئے مخصوص ہے۔ انہیں احساس ہوا یہ رشوت اور خاموش رہنے کا حق ہے لہذا اس نے اسے قبول نہیں کیا اور تاریخ نے نقل کیا ہے کہ جس رات ابوذر نے خلیفہ کا تحفہ واپس بھیجا تو وہ انتہائی غربت کی وجہ سے بھوکا سو گیا۔
امام علی علیہ السلام نے خلافت کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حکمرانوں نے ایسا کام کیا ہے جو اتنی جلدی لوگوں کو صحیح راستے پر نہیں لا سکتا۔ اسلام کے نقطہ نظر سے حکومت اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو تعلیم دینے اور جھوٹ، فریب اور خیانت کو کم کرنے کے لیے ہے۔ خواص کے لئے جناب ابوذر غفاری کی طرح مزاحمت لائحہ عمل ہے، تاکہ حکمرانوں کے چنگل میں نہ پھنس جائے جبکہ عوام کی جماعت ایسی نہیں ہے کوئی بھی مغیرہ بن شعبہ کی طرح لالچی ہوسکتا ہے اور عوام الناس رشوت خوری، جبر، زبردستی اور دھوکہ دہی اور لالچ کے جھانسی میں پھنس جاتے ہیں۔